Thursday, 4 April 2019

کیا ہمارا مزاج بدلے گا؟

آج کل ہمارے ملک میں پارلیمانی انتخابات کی گہما گہمی ہے. اپنے اپنے کارنامے گنانے اور بڑے بڑے وعدے کرنے کا دور چل رہا ہے. ہر شخص جانتا ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈر جو کارنامے گنا گنا کر گلے چھیل رہے ہیں، ان کی سچائی کیا ہے. سب کو معلوم ہے کہ الیکشن کے موقعے پر ہونے والے وعدوں میں سے نوّے پچانوے فی صد وعدے پورے نہیں ہونے ہیں. لیکن ہم پھر بھی ان کی ریلیوں میں شرکت کرتے ہیں، ٹی وی یا نیٹ پر ان کی تقریریں اور بیانات سنتے ہیں، ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان ہی کو ووٹ بھی دیں گے. آخر کیوں؟ کیوں کہ ہمارے نزدیک جھوٹ، وعدہ خلافی، حق تلفی، دھوکا دہی اور استحصال کوئی جرم نہیں ہے. ہم بھی اپنی اپنی زندگیوں میں آئے دن یہ جرم کرتے ہیں. پھر ہم ہی میں سے کچھ جھوٹے، وعدہ خلاف اور دھوکے باز لیڈر بن جاتے ہیں.

جب تک یہ صورت حال رہے گی، ہمارا ملک امن و امان اور پیار محبت کا گہوارہ نہیں بن سکے گا. یعنی دھوکے بازی کے اس پہیے کو روکنے کے لیے ہمیں خود بدلنا ہوگا. اپنا مزاج تبدیل کرنا ہوگا. جب تک یہ تبدیلی نہیں آئے گی، ملک کا بھلا ہونے والا نہیں ہے. شاید اس کے لیے ہمیں صدیوں انتظار کرنا پڑے گا.

کیا کچھ نسلوں اور کچھ صدیوں بعد ہمارا مزاج بدل جائے گا؟

Tuesday, 25 July 2017

خدا لگتی 2

(2) خدا لگتی

 لکھنؤ اور اس کے اطراف کے لوگوں نے جامعۃ المؤمنات کا نام سنا ہوگا. مسلم لڑکیوں کے اس دینی ادارے سے ایک ماہ نامہ المؤمنات نکلتا ہے. یہ رسالہ ماشاء اللہ پندرہ برسوں سے پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے. گزشتہ تین برسوں سے اس کی ادارت میرے ذمے ہے. اس لیے رسالے کی لوح پر ایک کونے میں میرا موبائل نمبر بھی لگا دیا گیا ہے. رسالے کے حلقہء قارئین کے مقابلے میں مدرسے کا دائرہء تعارف زیادہ وسیع ہے. اس لیے میرے پاس زیادہ فون مدرسے کے متعلق آتے ہیں. فون بھی ایک سے ایک. کوئی اپنی بچی سے بات کرنا چاہتا ہے تو کوئی بچی کی دوا دارو پنہچانا چاہتا ہے. کوئی غضب ناکی کے عالم میں "ہیلو" کرتا ہے تو کوئی سراپا ادب بن کر. غرض جتنے لوگ, اتنے انداز اور اتنی ہی باتیں. میری معلومات میں اُس کے سوال کا جواب ہوتا ہے تو دے دیتا ہوں, ورنہ دوسرے نمبر پر بات کرنے کی گزارش کرلیتا ہوں. تین سال سے اسی طرح کٹ رہی ہے.
 آج کل مدارس میں داخلوں کی گہما گہمی ہے ہی. اسی سلسلے کی ایک کال کچھ روز پہلے مجھے بھی موصول ہوئی. اس وقت میں دہلی میں اپنے دفتر میں مشغول تھا. فون اٹھا کر سلام کیا. دوسری طرف سے "وعلیکم السلام" کے بہ جائے "ہیلو" سننے کو ملا. وہ بھی ایسی گھن گرج کے ساتھ کہ میں تو ایک ہی ہیلو میں دفاعی پوزیشن میں آگیا. لہذا بڑے ادب سے پوچھا:
"جی صاحب, فرمائیے, کس سے بات کرنی ہے؟"
"کچھ پوچھنا ہے." دوسری طرف سے آواز آئی.
"جی بتائیے, کیا پوچھنا ہے؟" میں نے با ادب جواب دیا.
موصوف نے کہا: یہ جو "جَمتُل.....مومن.....آتا" ہے یہ کس کا ہے؟
تھوڑی دیر کو تو میں چکرایا. دماغ پر زور ڈالنے لگا. اے خدا  ! یہ کس سلسلے میں بات کر رہا ہے؟ ایک تو صحیح بولتا نہیں, اوپر سے جلالی بھی ہے. صحیح جواب نہ دیا تو نہ جانے کیا کیا سنا ڈالے. دوبارہ تِبارہ پوچھنے پر جب اس نے زور دے کر "جَمتووول.... مومن.....آتا" کہا اور لکھنؤ کا تذکرہ کیا تب جاکر ذہن جامعۃ المؤمنات کی طرف منتقل ہوا؟ جب اس نے بھی میری سمجھ کی تصدیق کر دی, تو میں نے ادارے کے بانیِ مرحوم کا تذکرہ کیا کہ یہ مدرسہ انھوں نے قائم کیا تھا. لیکن اُس اللہ کے بندے کو کسی چیز سے مطلب نہ تھا. میری بات کاٹ کر سیدھا موضوع پر آگیا: "یہ مدرسہ دیوبندیوں کا ہے یا سنّیوں کا؟" پوچھا اُس غریب نے, لیکن مجھے لگا کہ میں شرم سے گڑا جا رہا ہوں. چار و ناچار میں نے کہا: "دیوبندیوں کا." اُس نے پھر پوچھا: "نِماج میں ہاتھ تو نہیں جھاڑتے؟" میں نے آہستہ سے کہا: "نہیں." ظالم فیصلہ کرکے ہی آیا تھا کہ اِسے سر سے پاؤں تک زمین میں گاڑ کر ہی دم لینا ہے, چناں چہ آخری سوال کیا: "بَجُرگوں, اولیاؤں کو تو نہیں مانتے؟" میں اوپر سے نیچے تک ہل گیا اور یہ کہہ کر بات ختم کرنی چاہی کہ آپ ادارے سے ہندی میں لکھی تفصیلات منگا کر پڑھ لیجیے. حیرت کی بات یہ ہے کہ اَب اُس کی تُرشی کافور ہوچکی تھی. وہ میرے جوابات سے مطمئن ہوچکا تھا. حیرت انگیز طور پر اپنا لہجہ بدل کر بولا: "ٹھیک ہے حَجرت, اپنی لڑکی کا ایڈمیشن کرا دیں گے."

 آگے بڑھنے سے پہلے ایک واقعہ اور سنتے چلیے. عیسوی سنہ 2012 کی بات ہے. ہم مدینہ یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھے. حجاز مقدس میں دنیا بھر سے معتمرین کی آمد آمد تھی. ہم لوگ مغرب کی نماز کے بعد حرم نبوی میں بیٹھے تھے. قریب ہی پاکستان کے کسی علاقے کی ایک جماعت بھی تھی. وہ لوگ ہمارے ایک ہندستانی دوست سے بات چیت کر رہے تھے. اچانک وہ دوست اُن سب کو لے کر اٹھے اور میرے پاس آپہنچے. اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا وہ اُس جماعت سے بولے: "یہ آپ کے آدمی ہیں. ان سے پوچھ لیجیے. اے اللہ  ! میں تو خود اپنا نہیں, تو اِن لوگوں کا آدمی کیسے ہوگیا؟ چند لمحوں میں میرے دوست دور جا چکے تھے. نظر سے نظر ملی تو فاتحانہ انداز میں مسکراتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے کہا: سنبھالو انھیں !" اور خود یہ جا وہ جا. مرتا کیا نہ کرتا. سب کو لے کر بیٹھ گیا. خیر خیریت معلوم کی. وہ سب بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے. میری ابتدائی بات چیت کے باوجود اُن کے چہروں سے بے اطمینانی اور دسیوں شکوک و شبہات ظاہر تھے. کہیں یہ ہندستانی وہابڑا تو نہیں, جو ہمارا عقیدہ برباد کر ڈالے. وہ سب یہی سوچ رہے تھے. اسی لیے اب تک اُن میں سے کوئی کچھ نہیں بولا تھا. میری ظاہری ہیئت بھی اُن کے اس خیال کو تقویت پہنچا رہی تھی. کبھی کبھی اندھے کو بھی اندھیرے میں دور کی سوجھ جاتی ہے. بس میں نے سیدھے اُن بزرگوں کی باتیں چھیڑ دیں جو پاکستان میں آرام فرما ہیں. بابا فرید الدین گنج شکر, پیر مہر علی شاہ گولڑوی, شیخ سلیمان تونسوی, پیر فضل الدین کلیامی کی باتیں چل نکلیں تو اُن سب کی بانچھیں کھل گئیں. سارے شکوک و شبہات دور ہوگئے. انھوں نے مان لیا کہ میں "غیر" نہیں "اپنا" ہوں. جب میں نے انھیں بتایا کہ میں علامہ پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کا صرف عقیدت مند نہیں, فیض یافتہ بھی ہوں, پھر تو پوچھنا ہی کیا. اب سب بے تکلف ہوگئے. اپنے سوالات اور اشکالات پیش کرنے لگے اور جب تک مدینہ منورہ میں رہے پابندی کے ساتھ مجھ سے ملتے جلتے رہے.

 یہ دونوں واقعے اپنی اپنی جگہ غور و فکر کا بڑا سامان رکھتے ہیں. پہلا واقعہ بتاتا ہے کہ تمام مسالک و مکاتبِ فکر کے خواص نے عوام کو یہ سمجھایا ہے کہ چاہے ایک لفظ بھی نہ پڑھو لکھو, جاہل رہ جاؤ, بد تہذیب بن جاؤ,  لیکن اپنے مسلک پر ڈٹے رہو. جو تمہارے طریقے پر نہ ہو اُس کے قریب نہ پھٹکو اور یہ یقین رکھو کہ وہ گم راہ ہے. پہلے واقعے میں آپ خود دیکھ لیجیے. ایک آدمی کو سلام کے جواب کی اہمیت نہیں معلوم, بات چیت کا سلیقہ نہیں, عام اخلاقیات سے واقفیت نہیں, لیکن دیوبند و بریلی کی تقسیم کا خوب علم ہے. وہ لفظ "رفع یدین" نہیں جانتا, لیکن "ہاتھ جھاڑنے" کو گمراہی سمجھتا ہے. وہ بزرگ کو بَجُرگ کہتا ہے, لیکن اسے اس بات کا یقینی علم ہے کہ جو شخص اولیاء کرام اور بزرگان دین سے محبت کا دم بھرتا ہے, وہ اپنا نہیں, غیر ہے. کیا دنیا کا کوئی جامد سے جامد حنفی رفع یدین کو غلط کہہ سکتا ہے؟ کیا کوئی سخت سے سخت دیوبندی اولیاء کرام کا نام لینے کو عقیدے سے انحراف سمجھ سکتا ہے؟ کیا کوئی بڑے سے بڑا دیوبندی اور پکّے سے پکّا بریلوی جہالت اور بدخلقی کو "دین" کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟ جب یہ باتیں کسی کے بس میں نہیں, تو آخر سیدھے سادے عوام کے دل و دماغ میں یہ فکری نجاستیں کون انڈیل رہا ہے؟

 ہمارا ایمان ہے, عقیدہ ہے کہ امت کے جس خطرناک مرض کا اشارہ پہلے واقعے میں ہو رہا ہے, دوسرے واقعے میں اس کا علاج موجود ہے. پیار محبت, میل جول, ادب آداب, مشترکہ موضوعات پر گفتگو اور تبادلہء خیال. کاش  !  ہم یہ کام کرنے لگیں اور خود کو انتشار اور بکھراؤ سے محفوظ رکھنے کا انتظام کر سکیں.

(شاہ اجمل فاروق ندوی (نئی دہلی

Tuesday, 18 July 2017

خدا لگتی 1

خدا لگتی  (1)

حضرت شیخ الحدیث کی رحلت پر

گزشتہ دنوں شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جون پوری نے وفات پائی. یوں حدیث کا استاد ہونا ہی کیا کم ہے؟ مرحوم تو مجتہدانہ فکر کے حامل محدّث تھے. نصف صدی سے زائد عرصہ علوم حدیث کی تدریس میں گزارا. حدیث میں اپنے عظیم استاد کے عظیم جانشین ثابت ہوئے. استادِ حدیث نہیں, فنا فی الحدیث بن کر رہے. بڑی خاموشی سے رحلت فرمائی اور بڑی دھوم سے پیوند خاک ہوئے. رحمه الله تعالى رحمة واسعة.
حضرت شیخ الحدیث کی وفات پر کچھ رویّوں کا تجربہ ہوا. جی چاہتا ہے کہ ان تجربوں میں آپ کو بھی شریک کیا جائے.
شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جون پوری کا آبائی وطن جون پور تھا. جون پور کی عظمت و رفعت اور مردم خیزی کا کون منکر ہو سکتا ہے؟ اسے شیرازِ ہند کہا جاتا ہے اور صحیح کہا جاتا ہے. اسی شیرازِ ہند کی مٹی سے مولانا یونس صاحب کا خمیر اٹھا تھا. لیکن عملی طور پر مولانا سہارن پوری ہوگئے تھے. کہیں پڑھا ہے کہ ایک مرتبہ مولانا جون پوری مظاہر علوم کے ایام طالب علمی میں شدید بیمار ہوگئے. لوگوں نے وطن لوٹ جانے کا مشورہ دیا. اپنے استاد و مرشد شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی کو صورت حال بتائی. انھوں نے بھی جون پور واپسی کا مشورہ دیا. لیکن مولانا کو اپنے استاد و مرشد اور مادرِ علمی کا فراق گوارا نہ تھا, اس لیے استاد کے مشورے پر کچھ آناکانی کا اظہار کیا. استاد نے یہ دیکھا تو اپنے مخصوص لہجے میں فرمایا: "تو پڑا رہ یہیں." اس جملے کو مولانا نے ایسا پکڑا کہ زندگی بھی سہارن پور میں گزاری اور تاقیامت "پڑے رہنے" کے لیے بھی سہارن پور کو ہی منتخب کیا. خیر... ہوا یوں کہ مولانا کی وفات کے کچھ دیر بعد ہمارے ایک جون پوری دوست نے پیغام بھیجا. "شیراز ہند کے عظیم سپوت کا وصال". میں نے عرض کیا: "پیارے خطے کے پیارے باشندو !  کیا برا ہوتا اگر آپ حضرات مولانا کی زندگی میں بھی اُن کی قدر شناسی کا اظہار کرتے؟ اُن کو پورے جون پور کی طرف سے استقبالیہ دیتے. ان کے نام پر کوئی ادارہ قائم کرتے. یا کوئی اور شکل نکال لیتے. اس سے مولانا کی عظمت میں تو کوئی اضافہ نہ ہوتا, ہاں دو فائدے ضرور ہوتے. اپنے وطن والوں کے اعتراف سے انہیں خوشی ہوتی اور آپ حضرات کا شمار زندہ محسنوں کا اعتراف کرنے والوں میں ہوتا." میرے جون پوری دوست نے میری بات تسلیم کی. یا ہوسکتا ہے دیوانے کی بڑ سمجھ کر خاموشی اختیار کر لی ہو.
وفات کے دن ہی عصر بعد حضرت شیخ الحدیث کا جنازہ اٹھا. جنازہ کیا تھا, خلقِ خدا کا سمندر تھا, جو حدیث نبوی کے ایک خادم کو رخصت کرنے کے لیے امڈ پڑا تھا. جسم مبارک کو ابھی پوری طرح پیوند خاک کیا بھی نہ گیا ہوگا کہ اطلاعاتی پیغاموں کا تانتا بندھ گیا. جنازے میں شریک ہونے والوں کی تعداد بہ اختلاف اقوال آٹھ لاکھ, دس لاکھ, بارہ لاکھ اور پندرہ لاکھ بتائی جانے لگی. عام طور پر دینی اجتماعات یا جنازوں میں افراد کی تعداد کا اندازہ غلط ہی ہوتا ہے. پانچ سات سو کے بعد صحیح اندازہ لگانا دشوار ہوجاتا ہے. تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ سہارن پور شہر کی کُل آبادی سات لاکھ, چوّن ہزار, اٹھتر (705478) ہے. اس میں عورتوں کی تعداد تین لاکھ, تینتیس ہزار, سات سو, اڑتیس (333738) ہے. کل آبادی میں مسلمانوں کا اوسط نصف سے بھی کم یعنی 45.89 فی صد ہے. گویا تقریباً تین لاکھ مسلمان ہیں, جن میں تقریباً نصف تعداد خواتین کی ہے. بچے ڈیڑھ لاکھ مسلمان مرد. ان میں نوعمر مسلم بچّے بھی شامل ہیں اور دیوبندی, بریلوی, شیعہ, اہل حدیث اور بے دین مسلمان بھی. یعنی سہارن پور شہر کے تمام دیوبندی مسلمان مردوں نے اگر جنازے میں شرکت کی ہوگی تو اُن کی تعداد پچھتر سے اسّی ہزار رہی ہوگی. اس کے علاوہ آس پاس کے شہروں, قصبوں اور دیہاتوں سے بھی مسلمان جنازے میں شریک ہوئے ہوں گے. اُن کی تعداد آپ سہارن پور شہر کے شرکاء جنازہ کے برابر رکھ لیجیے. یا زیادہ سے زیادہ اس کا دوگنا کر لیجیے. نتیجہ یہ نکلا کہ اگر شیخ کے جنازے میں سہارن پور کے تمام دیوبندی مسلمان شریک ہوئے اور  اُس کے دوگنے مسلمان دوسرے شہروں سے پہنچے تو بھی شرکاء جنازہ کی تعداد سوا دو لاکھ سے زیادہ کسی طرح نہیں بنتی. یہ تعداد بھی اُس وقت بنی جب کہ ہم نے حساب لگانے میں بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا. اس طرح تعداد کے متعلق جو اقوال لوگوں نے بیان کیے وہ سب کے سب غلط ثابت ہوتے ہیں. سوال یہ ہے کہ کیا بڑی تعداد بتانے سے جانے والے کی عظمت میں چار چاند لگ جائیں گے؟ یہ ہمیں بھی معلوم ہے کہ زبانِ خلق کو نقارہء خدا سمجھنا چاہیے. یہ بات بھی یقینی ہے کہ اس جم غفیر میں اللہ کے کچھ بندے ایسے ضرور ہوں گے جن کی شرکت اور دعا مرحوم کے لیے بلندیِ درجات کا باعث ہوگی. لیکن یہ بڑی تعداد مرحوم کے علمی مقام اور دینی کارناموں میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتی. ہاں, اس طرح کی بے سروپا ہانک کر ہم حکمِ الہی "قولوا قولاً سدیداً" (جنچی تُلی بات کہو) کی مخالفت ضرور کر بیٹھتے ہیں. اور بھائی سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جب مولانا جون پوری نے اپنی زندگی میں کبھی اپنے تلامذہ, معتقدین اور منتسبین کی کثرت پر فخر نہیں کیا, تو ہم کون ہوتے ہیں غلط بیانی کے ذریعے اُن کے شرکاء جنازہ کی تعداد بڑھا کر اُن کی عظمت میں اضافے کی کوشش کرنے والے؟
تدفین کی خبروں کے بعد سلسلہ شروع ہوا حضرت شیخ الحدیث کے تحریری, آڈیو اور ویڈیو ارشادات کی اشاعت کا. علماء کے ایک واٹس ایپ گروپ پر ایک صاحب نے ایک آڈیو ڈالی. عنوان تھا: "جب حضرت شیخ یونس نور اللہ مرقدہ نے مولانا طارق جمیل صاحب کو ڈانٹا". عنوان ہی ایسا تھا کہ آڈیو سنے بغیر رہا نہ جاسکا. حضرت جون پوری سے وابستہ کوئی صاحب کسی تعزیتی جلسے میں تقریر کر رہے تھے. دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ شیخ الحدیث مرحوم نے مولانا طارق جمیل صاحب کو ڈانٹا. مولانا طارق جمیل صاحب نے خندہ پیشانی کے ساتھ ڈانٹ سن لی. بعد میں شیخ کو احساس ہوا اور انھوں نے مولانا طارق جمیل سے معافی مانگ لی. یہ واقعہ سنانے کے بعد مقرر صاحب نے حضرت شیخ الحدیث کی احتیاط, استغناء, زہد, سخاوت اور دنیا سے بے رغبتی کا تذکرہ بھی کیا. لیکن حیرت ہے کہ ہمارے اُن عالم دوست کو اس پوری آڈیو میں شیخ کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل یہی ملی کہ انھوں نے مولانا طارق جمیل صاحب کو ڈانٹ دیا. حالاں کہ ڈانٹ کے اُس واقعے سے بھی شیخ کے انکسار کا پتا چلتا ہے.
مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے عظمت و رفعت کے پیمانے ہی بدل ڈالے ہیں. خاص کر اپنے بزرگوں پر تو بڑا ہی ظلم کیا ہے. بے اصل اور بے بنیاد چیزوں کو اُن کی عظمت کی دلیل سمجھ لیا ہے. غیر حقیقی معاملات کو اُن کا اصل امتیاز بنا دیا ہے. جس کی وجہ سے ہماری زبانوں پر اپنے بزرگوں کے پاکیزہ نام اور ہمارے کردار میں اُن کی تعلیمات کی صریح مخالفت ملتی ہے. اس کے باوجود ہم خود کو اپنے بزرگوں کا معتقد اور عاشق سمجھتے ہیں. واقعی ہم کتنے بڑے دھوکے میں ہیں.

شاہ اجمل فاروق ندوی (نئی دہلی)