Tuesday, 18 July 2017

خدا لگتی 1

خدا لگتی  (1)

حضرت شیخ الحدیث کی رحلت پر

گزشتہ دنوں شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جون پوری نے وفات پائی. یوں حدیث کا استاد ہونا ہی کیا کم ہے؟ مرحوم تو مجتہدانہ فکر کے حامل محدّث تھے. نصف صدی سے زائد عرصہ علوم حدیث کی تدریس میں گزارا. حدیث میں اپنے عظیم استاد کے عظیم جانشین ثابت ہوئے. استادِ حدیث نہیں, فنا فی الحدیث بن کر رہے. بڑی خاموشی سے رحلت فرمائی اور بڑی دھوم سے پیوند خاک ہوئے. رحمه الله تعالى رحمة واسعة.
حضرت شیخ الحدیث کی وفات پر کچھ رویّوں کا تجربہ ہوا. جی چاہتا ہے کہ ان تجربوں میں آپ کو بھی شریک کیا جائے.
شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جون پوری کا آبائی وطن جون پور تھا. جون پور کی عظمت و رفعت اور مردم خیزی کا کون منکر ہو سکتا ہے؟ اسے شیرازِ ہند کہا جاتا ہے اور صحیح کہا جاتا ہے. اسی شیرازِ ہند کی مٹی سے مولانا یونس صاحب کا خمیر اٹھا تھا. لیکن عملی طور پر مولانا سہارن پوری ہوگئے تھے. کہیں پڑھا ہے کہ ایک مرتبہ مولانا جون پوری مظاہر علوم کے ایام طالب علمی میں شدید بیمار ہوگئے. لوگوں نے وطن لوٹ جانے کا مشورہ دیا. اپنے استاد و مرشد شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی کو صورت حال بتائی. انھوں نے بھی جون پور واپسی کا مشورہ دیا. لیکن مولانا کو اپنے استاد و مرشد اور مادرِ علمی کا فراق گوارا نہ تھا, اس لیے استاد کے مشورے پر کچھ آناکانی کا اظہار کیا. استاد نے یہ دیکھا تو اپنے مخصوص لہجے میں فرمایا: "تو پڑا رہ یہیں." اس جملے کو مولانا نے ایسا پکڑا کہ زندگی بھی سہارن پور میں گزاری اور تاقیامت "پڑے رہنے" کے لیے بھی سہارن پور کو ہی منتخب کیا. خیر... ہوا یوں کہ مولانا کی وفات کے کچھ دیر بعد ہمارے ایک جون پوری دوست نے پیغام بھیجا. "شیراز ہند کے عظیم سپوت کا وصال". میں نے عرض کیا: "پیارے خطے کے پیارے باشندو !  کیا برا ہوتا اگر آپ حضرات مولانا کی زندگی میں بھی اُن کی قدر شناسی کا اظہار کرتے؟ اُن کو پورے جون پور کی طرف سے استقبالیہ دیتے. ان کے نام پر کوئی ادارہ قائم کرتے. یا کوئی اور شکل نکال لیتے. اس سے مولانا کی عظمت میں تو کوئی اضافہ نہ ہوتا, ہاں دو فائدے ضرور ہوتے. اپنے وطن والوں کے اعتراف سے انہیں خوشی ہوتی اور آپ حضرات کا شمار زندہ محسنوں کا اعتراف کرنے والوں میں ہوتا." میرے جون پوری دوست نے میری بات تسلیم کی. یا ہوسکتا ہے دیوانے کی بڑ سمجھ کر خاموشی اختیار کر لی ہو.
وفات کے دن ہی عصر بعد حضرت شیخ الحدیث کا جنازہ اٹھا. جنازہ کیا تھا, خلقِ خدا کا سمندر تھا, جو حدیث نبوی کے ایک خادم کو رخصت کرنے کے لیے امڈ پڑا تھا. جسم مبارک کو ابھی پوری طرح پیوند خاک کیا بھی نہ گیا ہوگا کہ اطلاعاتی پیغاموں کا تانتا بندھ گیا. جنازے میں شریک ہونے والوں کی تعداد بہ اختلاف اقوال آٹھ لاکھ, دس لاکھ, بارہ لاکھ اور پندرہ لاکھ بتائی جانے لگی. عام طور پر دینی اجتماعات یا جنازوں میں افراد کی تعداد کا اندازہ غلط ہی ہوتا ہے. پانچ سات سو کے بعد صحیح اندازہ لگانا دشوار ہوجاتا ہے. تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ سہارن پور شہر کی کُل آبادی سات لاکھ, چوّن ہزار, اٹھتر (705478) ہے. اس میں عورتوں کی تعداد تین لاکھ, تینتیس ہزار, سات سو, اڑتیس (333738) ہے. کل آبادی میں مسلمانوں کا اوسط نصف سے بھی کم یعنی 45.89 فی صد ہے. گویا تقریباً تین لاکھ مسلمان ہیں, جن میں تقریباً نصف تعداد خواتین کی ہے. بچے ڈیڑھ لاکھ مسلمان مرد. ان میں نوعمر مسلم بچّے بھی شامل ہیں اور دیوبندی, بریلوی, شیعہ, اہل حدیث اور بے دین مسلمان بھی. یعنی سہارن پور شہر کے تمام دیوبندی مسلمان مردوں نے اگر جنازے میں شرکت کی ہوگی تو اُن کی تعداد پچھتر سے اسّی ہزار رہی ہوگی. اس کے علاوہ آس پاس کے شہروں, قصبوں اور دیہاتوں سے بھی مسلمان جنازے میں شریک ہوئے ہوں گے. اُن کی تعداد آپ سہارن پور شہر کے شرکاء جنازہ کے برابر رکھ لیجیے. یا زیادہ سے زیادہ اس کا دوگنا کر لیجیے. نتیجہ یہ نکلا کہ اگر شیخ کے جنازے میں سہارن پور کے تمام دیوبندی مسلمان شریک ہوئے اور  اُس کے دوگنے مسلمان دوسرے شہروں سے پہنچے تو بھی شرکاء جنازہ کی تعداد سوا دو لاکھ سے زیادہ کسی طرح نہیں بنتی. یہ تعداد بھی اُس وقت بنی جب کہ ہم نے حساب لگانے میں بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا. اس طرح تعداد کے متعلق جو اقوال لوگوں نے بیان کیے وہ سب کے سب غلط ثابت ہوتے ہیں. سوال یہ ہے کہ کیا بڑی تعداد بتانے سے جانے والے کی عظمت میں چار چاند لگ جائیں گے؟ یہ ہمیں بھی معلوم ہے کہ زبانِ خلق کو نقارہء خدا سمجھنا چاہیے. یہ بات بھی یقینی ہے کہ اس جم غفیر میں اللہ کے کچھ بندے ایسے ضرور ہوں گے جن کی شرکت اور دعا مرحوم کے لیے بلندیِ درجات کا باعث ہوگی. لیکن یہ بڑی تعداد مرحوم کے علمی مقام اور دینی کارناموں میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتی. ہاں, اس طرح کی بے سروپا ہانک کر ہم حکمِ الہی "قولوا قولاً سدیداً" (جنچی تُلی بات کہو) کی مخالفت ضرور کر بیٹھتے ہیں. اور بھائی سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جب مولانا جون پوری نے اپنی زندگی میں کبھی اپنے تلامذہ, معتقدین اور منتسبین کی کثرت پر فخر نہیں کیا, تو ہم کون ہوتے ہیں غلط بیانی کے ذریعے اُن کے شرکاء جنازہ کی تعداد بڑھا کر اُن کی عظمت میں اضافے کی کوشش کرنے والے؟
تدفین کی خبروں کے بعد سلسلہ شروع ہوا حضرت شیخ الحدیث کے تحریری, آڈیو اور ویڈیو ارشادات کی اشاعت کا. علماء کے ایک واٹس ایپ گروپ پر ایک صاحب نے ایک آڈیو ڈالی. عنوان تھا: "جب حضرت شیخ یونس نور اللہ مرقدہ نے مولانا طارق جمیل صاحب کو ڈانٹا". عنوان ہی ایسا تھا کہ آڈیو سنے بغیر رہا نہ جاسکا. حضرت جون پوری سے وابستہ کوئی صاحب کسی تعزیتی جلسے میں تقریر کر رہے تھے. دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ شیخ الحدیث مرحوم نے مولانا طارق جمیل صاحب کو ڈانٹا. مولانا طارق جمیل صاحب نے خندہ پیشانی کے ساتھ ڈانٹ سن لی. بعد میں شیخ کو احساس ہوا اور انھوں نے مولانا طارق جمیل سے معافی مانگ لی. یہ واقعہ سنانے کے بعد مقرر صاحب نے حضرت شیخ الحدیث کی احتیاط, استغناء, زہد, سخاوت اور دنیا سے بے رغبتی کا تذکرہ بھی کیا. لیکن حیرت ہے کہ ہمارے اُن عالم دوست کو اس پوری آڈیو میں شیخ کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل یہی ملی کہ انھوں نے مولانا طارق جمیل صاحب کو ڈانٹ دیا. حالاں کہ ڈانٹ کے اُس واقعے سے بھی شیخ کے انکسار کا پتا چلتا ہے.
مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے عظمت و رفعت کے پیمانے ہی بدل ڈالے ہیں. خاص کر اپنے بزرگوں پر تو بڑا ہی ظلم کیا ہے. بے اصل اور بے بنیاد چیزوں کو اُن کی عظمت کی دلیل سمجھ لیا ہے. غیر حقیقی معاملات کو اُن کا اصل امتیاز بنا دیا ہے. جس کی وجہ سے ہماری زبانوں پر اپنے بزرگوں کے پاکیزہ نام اور ہمارے کردار میں اُن کی تعلیمات کی صریح مخالفت ملتی ہے. اس کے باوجود ہم خود کو اپنے بزرگوں کا معتقد اور عاشق سمجھتے ہیں. واقعی ہم کتنے بڑے دھوکے میں ہیں.

شاہ اجمل فاروق ندوی (نئی دہلی) 

No comments:

Post a Comment