(2) خدا لگتی
لکھنؤ اور اس کے اطراف کے لوگوں نے جامعۃ المؤمنات کا نام سنا ہوگا. مسلم لڑکیوں کے اس دینی ادارے سے ایک ماہ نامہ المؤمنات نکلتا ہے. یہ رسالہ ماشاء اللہ پندرہ برسوں سے پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے. گزشتہ تین برسوں سے اس کی ادارت میرے ذمے ہے. اس لیے رسالے کی لوح پر ایک کونے میں میرا موبائل نمبر بھی لگا دیا گیا ہے. رسالے کے حلقہء قارئین کے مقابلے میں مدرسے کا دائرہء تعارف زیادہ وسیع ہے. اس لیے میرے پاس زیادہ فون مدرسے کے متعلق آتے ہیں. فون بھی ایک سے ایک. کوئی اپنی بچی سے بات کرنا چاہتا ہے تو کوئی بچی کی دوا دارو پنہچانا چاہتا ہے. کوئی غضب ناکی کے عالم میں "ہیلو" کرتا ہے تو کوئی سراپا ادب بن کر. غرض جتنے لوگ, اتنے انداز اور اتنی ہی باتیں. میری معلومات میں اُس کے سوال کا جواب ہوتا ہے تو دے دیتا ہوں, ورنہ دوسرے نمبر پر بات کرنے کی گزارش کرلیتا ہوں. تین سال سے اسی طرح کٹ رہی ہے.
آج کل مدارس میں داخلوں کی گہما گہمی ہے ہی. اسی سلسلے کی ایک کال کچھ روز پہلے مجھے بھی موصول ہوئی. اس وقت میں دہلی میں اپنے دفتر میں مشغول تھا. فون اٹھا کر سلام کیا. دوسری طرف سے "وعلیکم السلام" کے بہ جائے "ہیلو" سننے کو ملا. وہ بھی ایسی گھن گرج کے ساتھ کہ میں تو ایک ہی ہیلو میں دفاعی پوزیشن میں آگیا. لہذا بڑے ادب سے پوچھا:
"جی صاحب, فرمائیے, کس سے بات کرنی ہے؟"
"کچھ پوچھنا ہے." دوسری طرف سے آواز آئی.
"جی بتائیے, کیا پوچھنا ہے؟" میں نے با ادب جواب دیا.
موصوف نے کہا: یہ جو "جَمتُل.....مومن.....آتا" ہے یہ کس کا ہے؟
تھوڑی دیر کو تو میں چکرایا. دماغ پر زور ڈالنے لگا. اے خدا ! یہ کس سلسلے میں بات کر رہا ہے؟ ایک تو صحیح بولتا نہیں, اوپر سے جلالی بھی ہے. صحیح جواب نہ دیا تو نہ جانے کیا کیا سنا ڈالے. دوبارہ تِبارہ پوچھنے پر جب اس نے زور دے کر "جَمتووول.... مومن.....آتا" کہا اور لکھنؤ کا تذکرہ کیا تب جاکر ذہن جامعۃ المؤمنات کی طرف منتقل ہوا؟ جب اس نے بھی میری سمجھ کی تصدیق کر دی, تو میں نے ادارے کے بانیِ مرحوم کا تذکرہ کیا کہ یہ مدرسہ انھوں نے قائم کیا تھا. لیکن اُس اللہ کے بندے کو کسی چیز سے مطلب نہ تھا. میری بات کاٹ کر سیدھا موضوع پر آگیا: "یہ مدرسہ دیوبندیوں کا ہے یا سنّیوں کا؟" پوچھا اُس غریب نے, لیکن مجھے لگا کہ میں شرم سے گڑا جا رہا ہوں. چار و ناچار میں نے کہا: "دیوبندیوں کا." اُس نے پھر پوچھا: "نِماج میں ہاتھ تو نہیں جھاڑتے؟" میں نے آہستہ سے کہا: "نہیں." ظالم فیصلہ کرکے ہی آیا تھا کہ اِسے سر سے پاؤں تک زمین میں گاڑ کر ہی دم لینا ہے, چناں چہ آخری سوال کیا: "بَجُرگوں, اولیاؤں کو تو نہیں مانتے؟" میں اوپر سے نیچے تک ہل گیا اور یہ کہہ کر بات ختم کرنی چاہی کہ آپ ادارے سے ہندی میں لکھی تفصیلات منگا کر پڑھ لیجیے. حیرت کی بات یہ ہے کہ اَب اُس کی تُرشی کافور ہوچکی تھی. وہ میرے جوابات سے مطمئن ہوچکا تھا. حیرت انگیز طور پر اپنا لہجہ بدل کر بولا: "ٹھیک ہے حَجرت, اپنی لڑکی کا ایڈمیشن کرا دیں گے."
آگے بڑھنے سے پہلے ایک واقعہ اور سنتے چلیے. عیسوی سنہ 2012 کی بات ہے. ہم مدینہ یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھے. حجاز مقدس میں دنیا بھر سے معتمرین کی آمد آمد تھی. ہم لوگ مغرب کی نماز کے بعد حرم نبوی میں بیٹھے تھے. قریب ہی پاکستان کے کسی علاقے کی ایک جماعت بھی تھی. وہ لوگ ہمارے ایک ہندستانی دوست سے بات چیت کر رہے تھے. اچانک وہ دوست اُن سب کو لے کر اٹھے اور میرے پاس آپہنچے. اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا وہ اُس جماعت سے بولے: "یہ آپ کے آدمی ہیں. ان سے پوچھ لیجیے. اے اللہ ! میں تو خود اپنا نہیں, تو اِن لوگوں کا آدمی کیسے ہوگیا؟ چند لمحوں میں میرے دوست دور جا چکے تھے. نظر سے نظر ملی تو فاتحانہ انداز میں مسکراتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے کہا: سنبھالو انھیں !" اور خود یہ جا وہ جا. مرتا کیا نہ کرتا. سب کو لے کر بیٹھ گیا. خیر خیریت معلوم کی. وہ سب بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے. میری ابتدائی بات چیت کے باوجود اُن کے چہروں سے بے اطمینانی اور دسیوں شکوک و شبہات ظاہر تھے. کہیں یہ ہندستانی وہابڑا تو نہیں, جو ہمارا عقیدہ برباد کر ڈالے. وہ سب یہی سوچ رہے تھے. اسی لیے اب تک اُن میں سے کوئی کچھ نہیں بولا تھا. میری ظاہری ہیئت بھی اُن کے اس خیال کو تقویت پہنچا رہی تھی. کبھی کبھی اندھے کو بھی اندھیرے میں دور کی سوجھ جاتی ہے. بس میں نے سیدھے اُن بزرگوں کی باتیں چھیڑ دیں جو پاکستان میں آرام فرما ہیں. بابا فرید الدین گنج شکر, پیر مہر علی شاہ گولڑوی, شیخ سلیمان تونسوی, پیر فضل الدین کلیامی کی باتیں چل نکلیں تو اُن سب کی بانچھیں کھل گئیں. سارے شکوک و شبہات دور ہوگئے. انھوں نے مان لیا کہ میں "غیر" نہیں "اپنا" ہوں. جب میں نے انھیں بتایا کہ میں علامہ پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کا صرف عقیدت مند نہیں, فیض یافتہ بھی ہوں, پھر تو پوچھنا ہی کیا. اب سب بے تکلف ہوگئے. اپنے سوالات اور اشکالات پیش کرنے لگے اور جب تک مدینہ منورہ میں رہے پابندی کے ساتھ مجھ سے ملتے جلتے رہے.
یہ دونوں واقعے اپنی اپنی جگہ غور و فکر کا بڑا سامان رکھتے ہیں. پہلا واقعہ بتاتا ہے کہ تمام مسالک و مکاتبِ فکر کے خواص نے عوام کو یہ سمجھایا ہے کہ چاہے ایک لفظ بھی نہ پڑھو لکھو, جاہل رہ جاؤ, بد تہذیب بن جاؤ, لیکن اپنے مسلک پر ڈٹے رہو. جو تمہارے طریقے پر نہ ہو اُس کے قریب نہ پھٹکو اور یہ یقین رکھو کہ وہ گم راہ ہے. پہلے واقعے میں آپ خود دیکھ لیجیے. ایک آدمی کو سلام کے جواب کی اہمیت نہیں معلوم, بات چیت کا سلیقہ نہیں, عام اخلاقیات سے واقفیت نہیں, لیکن دیوبند و بریلی کی تقسیم کا خوب علم ہے. وہ لفظ "رفع یدین" نہیں جانتا, لیکن "ہاتھ جھاڑنے" کو گمراہی سمجھتا ہے. وہ بزرگ کو بَجُرگ کہتا ہے, لیکن اسے اس بات کا یقینی علم ہے کہ جو شخص اولیاء کرام اور بزرگان دین سے محبت کا دم بھرتا ہے, وہ اپنا نہیں, غیر ہے. کیا دنیا کا کوئی جامد سے جامد حنفی رفع یدین کو غلط کہہ سکتا ہے؟ کیا کوئی سخت سے سخت دیوبندی اولیاء کرام کا نام لینے کو عقیدے سے انحراف سمجھ سکتا ہے؟ کیا کوئی بڑے سے بڑا دیوبندی اور پکّے سے پکّا بریلوی جہالت اور بدخلقی کو "دین" کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟ جب یہ باتیں کسی کے بس میں نہیں, تو آخر سیدھے سادے عوام کے دل و دماغ میں یہ فکری نجاستیں کون انڈیل رہا ہے؟
ہمارا ایمان ہے, عقیدہ ہے کہ امت کے جس خطرناک مرض کا اشارہ پہلے واقعے میں ہو رہا ہے, دوسرے واقعے میں اس کا علاج موجود ہے. پیار محبت, میل جول, ادب آداب, مشترکہ موضوعات پر گفتگو اور تبادلہء خیال. کاش ! ہم یہ کام کرنے لگیں اور خود کو انتشار اور بکھراؤ سے محفوظ رکھنے کا انتظام کر سکیں.
(شاہ اجمل فاروق ندوی (نئی دہلی
لکھنؤ اور اس کے اطراف کے لوگوں نے جامعۃ المؤمنات کا نام سنا ہوگا. مسلم لڑکیوں کے اس دینی ادارے سے ایک ماہ نامہ المؤمنات نکلتا ہے. یہ رسالہ ماشاء اللہ پندرہ برسوں سے پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے. گزشتہ تین برسوں سے اس کی ادارت میرے ذمے ہے. اس لیے رسالے کی لوح پر ایک کونے میں میرا موبائل نمبر بھی لگا دیا گیا ہے. رسالے کے حلقہء قارئین کے مقابلے میں مدرسے کا دائرہء تعارف زیادہ وسیع ہے. اس لیے میرے پاس زیادہ فون مدرسے کے متعلق آتے ہیں. فون بھی ایک سے ایک. کوئی اپنی بچی سے بات کرنا چاہتا ہے تو کوئی بچی کی دوا دارو پنہچانا چاہتا ہے. کوئی غضب ناکی کے عالم میں "ہیلو" کرتا ہے تو کوئی سراپا ادب بن کر. غرض جتنے لوگ, اتنے انداز اور اتنی ہی باتیں. میری معلومات میں اُس کے سوال کا جواب ہوتا ہے تو دے دیتا ہوں, ورنہ دوسرے نمبر پر بات کرنے کی گزارش کرلیتا ہوں. تین سال سے اسی طرح کٹ رہی ہے.
آج کل مدارس میں داخلوں کی گہما گہمی ہے ہی. اسی سلسلے کی ایک کال کچھ روز پہلے مجھے بھی موصول ہوئی. اس وقت میں دہلی میں اپنے دفتر میں مشغول تھا. فون اٹھا کر سلام کیا. دوسری طرف سے "وعلیکم السلام" کے بہ جائے "ہیلو" سننے کو ملا. وہ بھی ایسی گھن گرج کے ساتھ کہ میں تو ایک ہی ہیلو میں دفاعی پوزیشن میں آگیا. لہذا بڑے ادب سے پوچھا:
"جی صاحب, فرمائیے, کس سے بات کرنی ہے؟"
"کچھ پوچھنا ہے." دوسری طرف سے آواز آئی.
"جی بتائیے, کیا پوچھنا ہے؟" میں نے با ادب جواب دیا.
موصوف نے کہا: یہ جو "جَمتُل.....مومن.....آتا" ہے یہ کس کا ہے؟
تھوڑی دیر کو تو میں چکرایا. دماغ پر زور ڈالنے لگا. اے خدا ! یہ کس سلسلے میں بات کر رہا ہے؟ ایک تو صحیح بولتا نہیں, اوپر سے جلالی بھی ہے. صحیح جواب نہ دیا تو نہ جانے کیا کیا سنا ڈالے. دوبارہ تِبارہ پوچھنے پر جب اس نے زور دے کر "جَمتووول.... مومن.....آتا" کہا اور لکھنؤ کا تذکرہ کیا تب جاکر ذہن جامعۃ المؤمنات کی طرف منتقل ہوا؟ جب اس نے بھی میری سمجھ کی تصدیق کر دی, تو میں نے ادارے کے بانیِ مرحوم کا تذکرہ کیا کہ یہ مدرسہ انھوں نے قائم کیا تھا. لیکن اُس اللہ کے بندے کو کسی چیز سے مطلب نہ تھا. میری بات کاٹ کر سیدھا موضوع پر آگیا: "یہ مدرسہ دیوبندیوں کا ہے یا سنّیوں کا؟" پوچھا اُس غریب نے, لیکن مجھے لگا کہ میں شرم سے گڑا جا رہا ہوں. چار و ناچار میں نے کہا: "دیوبندیوں کا." اُس نے پھر پوچھا: "نِماج میں ہاتھ تو نہیں جھاڑتے؟" میں نے آہستہ سے کہا: "نہیں." ظالم فیصلہ کرکے ہی آیا تھا کہ اِسے سر سے پاؤں تک زمین میں گاڑ کر ہی دم لینا ہے, چناں چہ آخری سوال کیا: "بَجُرگوں, اولیاؤں کو تو نہیں مانتے؟" میں اوپر سے نیچے تک ہل گیا اور یہ کہہ کر بات ختم کرنی چاہی کہ آپ ادارے سے ہندی میں لکھی تفصیلات منگا کر پڑھ لیجیے. حیرت کی بات یہ ہے کہ اَب اُس کی تُرشی کافور ہوچکی تھی. وہ میرے جوابات سے مطمئن ہوچکا تھا. حیرت انگیز طور پر اپنا لہجہ بدل کر بولا: "ٹھیک ہے حَجرت, اپنی لڑکی کا ایڈمیشن کرا دیں گے."
آگے بڑھنے سے پہلے ایک واقعہ اور سنتے چلیے. عیسوی سنہ 2012 کی بات ہے. ہم مدینہ یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھے. حجاز مقدس میں دنیا بھر سے معتمرین کی آمد آمد تھی. ہم لوگ مغرب کی نماز کے بعد حرم نبوی میں بیٹھے تھے. قریب ہی پاکستان کے کسی علاقے کی ایک جماعت بھی تھی. وہ لوگ ہمارے ایک ہندستانی دوست سے بات چیت کر رہے تھے. اچانک وہ دوست اُن سب کو لے کر اٹھے اور میرے پاس آپہنچے. اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا وہ اُس جماعت سے بولے: "یہ آپ کے آدمی ہیں. ان سے پوچھ لیجیے. اے اللہ ! میں تو خود اپنا نہیں, تو اِن لوگوں کا آدمی کیسے ہوگیا؟ چند لمحوں میں میرے دوست دور جا چکے تھے. نظر سے نظر ملی تو فاتحانہ انداز میں مسکراتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے کہا: سنبھالو انھیں !" اور خود یہ جا وہ جا. مرتا کیا نہ کرتا. سب کو لے کر بیٹھ گیا. خیر خیریت معلوم کی. وہ سب بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے. میری ابتدائی بات چیت کے باوجود اُن کے چہروں سے بے اطمینانی اور دسیوں شکوک و شبہات ظاہر تھے. کہیں یہ ہندستانی وہابڑا تو نہیں, جو ہمارا عقیدہ برباد کر ڈالے. وہ سب یہی سوچ رہے تھے. اسی لیے اب تک اُن میں سے کوئی کچھ نہیں بولا تھا. میری ظاہری ہیئت بھی اُن کے اس خیال کو تقویت پہنچا رہی تھی. کبھی کبھی اندھے کو بھی اندھیرے میں دور کی سوجھ جاتی ہے. بس میں نے سیدھے اُن بزرگوں کی باتیں چھیڑ دیں جو پاکستان میں آرام فرما ہیں. بابا فرید الدین گنج شکر, پیر مہر علی شاہ گولڑوی, شیخ سلیمان تونسوی, پیر فضل الدین کلیامی کی باتیں چل نکلیں تو اُن سب کی بانچھیں کھل گئیں. سارے شکوک و شبہات دور ہوگئے. انھوں نے مان لیا کہ میں "غیر" نہیں "اپنا" ہوں. جب میں نے انھیں بتایا کہ میں علامہ پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کا صرف عقیدت مند نہیں, فیض یافتہ بھی ہوں, پھر تو پوچھنا ہی کیا. اب سب بے تکلف ہوگئے. اپنے سوالات اور اشکالات پیش کرنے لگے اور جب تک مدینہ منورہ میں رہے پابندی کے ساتھ مجھ سے ملتے جلتے رہے.
یہ دونوں واقعے اپنی اپنی جگہ غور و فکر کا بڑا سامان رکھتے ہیں. پہلا واقعہ بتاتا ہے کہ تمام مسالک و مکاتبِ فکر کے خواص نے عوام کو یہ سمجھایا ہے کہ چاہے ایک لفظ بھی نہ پڑھو لکھو, جاہل رہ جاؤ, بد تہذیب بن جاؤ, لیکن اپنے مسلک پر ڈٹے رہو. جو تمہارے طریقے پر نہ ہو اُس کے قریب نہ پھٹکو اور یہ یقین رکھو کہ وہ گم راہ ہے. پہلے واقعے میں آپ خود دیکھ لیجیے. ایک آدمی کو سلام کے جواب کی اہمیت نہیں معلوم, بات چیت کا سلیقہ نہیں, عام اخلاقیات سے واقفیت نہیں, لیکن دیوبند و بریلی کی تقسیم کا خوب علم ہے. وہ لفظ "رفع یدین" نہیں جانتا, لیکن "ہاتھ جھاڑنے" کو گمراہی سمجھتا ہے. وہ بزرگ کو بَجُرگ کہتا ہے, لیکن اسے اس بات کا یقینی علم ہے کہ جو شخص اولیاء کرام اور بزرگان دین سے محبت کا دم بھرتا ہے, وہ اپنا نہیں, غیر ہے. کیا دنیا کا کوئی جامد سے جامد حنفی رفع یدین کو غلط کہہ سکتا ہے؟ کیا کوئی سخت سے سخت دیوبندی اولیاء کرام کا نام لینے کو عقیدے سے انحراف سمجھ سکتا ہے؟ کیا کوئی بڑے سے بڑا دیوبندی اور پکّے سے پکّا بریلوی جہالت اور بدخلقی کو "دین" کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟ جب یہ باتیں کسی کے بس میں نہیں, تو آخر سیدھے سادے عوام کے دل و دماغ میں یہ فکری نجاستیں کون انڈیل رہا ہے؟
ہمارا ایمان ہے, عقیدہ ہے کہ امت کے جس خطرناک مرض کا اشارہ پہلے واقعے میں ہو رہا ہے, دوسرے واقعے میں اس کا علاج موجود ہے. پیار محبت, میل جول, ادب آداب, مشترکہ موضوعات پر گفتگو اور تبادلہء خیال. کاش ! ہم یہ کام کرنے لگیں اور خود کو انتشار اور بکھراؤ سے محفوظ رکھنے کا انتظام کر سکیں.
(شاہ اجمل فاروق ندوی (نئی دہلی